1999ء میں امریکن آکیڈمی آف پیڈایٹرکز، امریکن کاونسلنگ اسوسی ایشن، امریکن سائیکلوجکل اسوسی ایشن، امریکن اسوسی ایشن آف سکول ایڈمینسٹریٹرز، امریکن فیڈریشن آف ٹیچرز، امریکن سکول ہیلتھ اسوسی ایشن، انٹرفیتھ الائنس فاؤنڈیشن، نینشنل اسوسی ایشن آف سکول سائیکلوجسٹز، نیشنل اسوسی ایشن آف سوشل ورکرز اور نیشنل ایجوکیشن اسوسی ایشن جیسے مستند اور نمایاں اداروں اور تنظیموں نے مشترکہ طور پر “جنسی میلان کے متعلق “Just The Facts About Sexual Orientation” کے نام سے ایک دستاویز شائع کی جس میں سب نے ریپیرٹیوہ تھراپی (Reparative Therapy) طریقۂ علاج کو بے فائدہ قرار دیتے ہوئے اس کو مذمت کی اور ہم جنسیت کو فطری عمل قرار دیا جو کہ بدلا نہیں جا سکتاـ ۶
جیسا کہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ہم جنسیت کوئی مرضی، بیماری یا ذہنی مسئلہ نہیں ہے جس کو کسی بھی علاج معالجے، سایئکو تھراپی یا عبادات سے دور کیا جا سکے ـ لھذا وہ دینی اور مذہبی ادارے جو کویئر افراد کو ان کے فطری جنسی میلان سے چھٹکارا دلانے کے لیے سایئکو تھراپی یا روحانی علاج معالجے کا مشورہ دیتے ہیں اصل میں لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں ـ
یقینا پاکستان میں بھی چند ایسے نام نہاد “ماہرین” موجود ہوں گے جن کے مطابق اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر یعنی نماز، قرآن، روزے کی پابندی کر کے اور ورزش یا کسی کھیل میں خود کو معروف کر کہ، اچھی محبت اختیار کر کہ اور پھر شادی کر کہ انسان ہم جنسیت پر قابو پا سکتا ہےـ حالانکہ ہم جنس اقرار کی ایک تعداد پہلے ہی سے ان تمام مشوروں پر عمل کر چکی ہوتی ہے جو کہ سودمند ثابت نہیں ہوتے ـ جہاں ایک طرف شادی کا متوقع نئے کنبے کے لیے ایک آزمائش اور بسا اوقات تباہی کا موجب بنتا ہے وہاں عبادات میں معروف رہنے اور اچھی محبت اختیار کرنے سے بھی محض انسان کو تمام عمر کنوارہ بن کر رہنے کا ہی درس ملتا ہےـ جبکہ وہ تمام فطری جذبات ہر قسم کے متوقع حل پر عمل کرنے کے باوجود نہیں بدلتے ـ ہم جنس افراد کی تکلیف کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کسی مخالف جنسی فرد کو تمام عمر تجرد میں رہنے کا کہا جائے یا پھر کسی ایسے فرد سے شادی کرنے کو کہا جائے جس میں اسے پالکل بھی دلچسپی نہیں ـ