اردو

15 posts

غلط فہمی

سب کے سامنے اپنی جنسیت کا اعتراف کرنا ضروری ہے

جنسیت ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔ دوسروں کو بتانا کسی قسم کا بھی مثالی یا ضروری عمل نہیں ہے۔ مغربی ممالک اور معاشروں میں تو اس کی شاید ضرورت ہے کیونکہ وہاں کی کمیونٹی اپنی حکومت کے غاصبانہ قوانین کے خیلاف جد و جہد میں معروف ہے۔ تاہم، مسلم معاشروں میں مجموعی طو پر ہ دوسروں کے سامنے اپنی جنسیت کا اعتراف کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ نہ ہی ہر لمحہ پر یہ بات بتانا چسپاں ہے۔ مثلاً مارکیٹ میں سبزی خریدنے کے لیے دکاندار کو آپ کی جنسیت کا پتا ہونا ضروری نہیں ہے۔ البتہ کسی سے قریبی رشتہ قائم کرنا ہو تو شاید اس بات کی آگاہی ضروری ہو جائے۔

یعنی آپ کو جس کو بتانا ہے بتائیے، اور جس کو بتانے سے جھجھک رہے ہیں، یقیناً آپکی جھجھک بجا ہے۔ اپنی صحت و عافیت، اپنی خوشحالی کو مدِ نظر رکھ کر یہ فیصلی کیجئے۔ اگر بتانے سے آپ کی جانی،مادی، مالی، ذہنی، جنسی، جسمانی، نفسیاتی یا روحانی صحت پر منفی اثر پڑے گا، اور آپ اس کو اس لمحہ میں نہیں جھیل سکتے، یا نہیں جھیلنا چاہیتے، تو اپنے آپ سے زیادتی نہ کیجئے۔

ہمجنسیت جسم فروشی، حیوانیت اور محرمات کے ساتھ مباشرت کے مترادف ہےـ

غلط فہمی

ہمجنسیت جسم فروشی، حیوانیت اور محرمات کے ساتھ مباشرت کے مترادف ہےـ

جہاں تک جسم فروشی کا تعلق ہے تو یہ صاف ظاہر ہے کہ اس میں پیسوں کے لیے انسان اپنا جسم بیچتا ہےـ اور محض پیسوں کے لیے جسمانی تعلق قائم کرنا، کسی بھی ہم جنس یا مخالف جنس محبت سے بہت الگ بات ہے۔ جہاں دو لوگ پوری محبت، دیانتداری اور ایثار کے ساتھ ہر اچھے برے وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں، وہ جسم فروشی کا عنصر اس میں آتا ہی نہیں ہے۔

حیوانیت سے مراد جانوروں کے ساتھ جنسی عمل کرنا ہے جس میں رضامندی تو ظاہر ہے موجود نہیں ہوتی۔ـ دو بالغ افراد کی رضامندی سے قائم ہونے والے جنسی تعلق جانوروں کی بے حرمتی سے تو بہت دور ہے۔ـ

چونکہ روایاتی مخالف جنس تعلق میں مرد عورت کو “حاصل” کر لیتا ہے، اسی لیے لوگ شاید حیوانیت کو بھی انسانوں کے مابین جنسی تعلق ہی کے مترادف سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہےـ۔ دو بالغ افراد کے مابین ایک مثالی جنسی تعلق صرف اسی وقت ہی قائم ہو سکتا ہے جب دونوں افراد جنسی عمل پر رضامند ہوں اور کوئی بھی کسی کو “حاصل” کرنے کی کوشش نہ کرے جیسے کہ ایک مرد کسی جانور کے ساتھ کرتا ہےـ۔

محرمات سے مباشرت میں بھی رضامندی کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتاـ۔ یہ ایسا شرمناک فعل ہے جس میں خاندان کی آکائی کو تقویت دینے کی بجائے اس کی توہین کرنا، جذباتی طور پر بلیک میل کرنا، اپنی طاقت ثابت کرنے اور دوسروں پر کنٹرول حاصل کرنے جیسی وجوہات ہوتی ہیں۔ ـ

“ہمجنسیت بچہ بازی کا دوسرا نام ہےـ”

ہم جنس افراد کی مذمت میں بہت سے پاکستانی چند ٹرک ڈرایئووں اور پٹھان قوم کے متعلق قصوں کو بنیاد بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوش کرتے ہیں کہ یہ افراد جو کہ بچوں پر جنسی تشدد جیسے شنیع فعل کے مرتکب ہوتے ہیں اصل میں ہم جنس افراد ہوتے ہیں ـ۱ حالانکہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بچوں پر جنسی تشدد عام طور پر مخالف جنس افراد کرتے ہیں جن کو ہم “پیڈو فائلز” کہتے ہیں ـ قابلِِ غور بات یہ بھی ہے کہ عام طور پر بچوں پر جنسی تشدد وہ انسان کرتا ہے جسے وہ جانتے ہیں جو کہ شاید کوئی انکل یا قریبی دوست احباب میں سے ہو سکتا ہےـ تحقیق سے یہ بات ب ھی سامنے آئی ہے کہ ہم جنس افراد کا بچوں پر جنسی تشدد کرنے کا تناسب انہائی کم ۲ہےـ مزید برآں، بچیاں بچوں کی نسبت 7 گنا زیادہ تشدد کا شکار ہوتی ہیں ـ

“ہمجنسیت صرف اور صرف سیکس تک محدود ہےـ”

نہیں یہ تاثر بالکل غلط ہےـ لفظ ‘ہم جنس” میں محض “جنس” کا لفظ دیکھ کر یہ فیصلہ کر لیتا کہ یہ تعلق صرف اور صرف وقتی جنسی تسکین تک ہی محدود ہے ایک گمراہ کن سوچ ہےـ تاہم ایسے ہم جنس افراد بھی ہوں گے جو کہ جنسی تعلقات کے معاملے میں آزادی کےحق میں ہوں گے مگر ان کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے ہم جنس افراد بھی ہیں جو کہ ایک دیر پا اور بایئدار تعلق قائم کرتے ہیں ـ “کم اینگ آؤٹ” (اپنے فطری جنسی یا صنفی شناخت کو قبول کرنے یا دوسروں کو کو اس کے بارے میں بتانے کا عمل) کے عمل میں بہت سے گیز اور لیزبینز اپنے ارد گرد کے ماحول سے مختلف تجربات اکتحے کرتے ہیں اور بسا اوقات کسی بھی موجود طریقۂ کار کو محض اس لیے اپنا لیتے ہیں کیونکہ شاید وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ان کو یہ اپنانا ہےـ جبکہ انسان کو اپنی ذات اور صفات کے پیش نظر ہی یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ اپنی زندگی اس نے کس طریقہ سے گزارنی ہےـ یہ سن کہ یا دیکھ کر کہ ہم جنسی تعلقات میں جسمانی تسکین ہی سب کچھ ہے اور مجھے اس بات کو اپنانا ہے ایک غلط سوچ ہےـ کیونکہ ہم جنس تعلقات کسی بھی دوسرے تعلق کی طرح سے عارضی نوعیت کے بھی ہو سکتے ہیں اور پائیدار بھی ـ کیونکہ ان میں بہت تنوع پایا جاتا ہے ـ ان تعلقات میں محبت، ذمہ داری، ایثار اور بہت زیادہ ہمت اور کام کرنے کی ضرورت ہےـ روز مرہ زندگی کے معمولی کاموں یعنی سودا سلف خریدنا، بل ادا کرنا، گھر یا کار خریدنا وغیرہ بھی اسی کا حصہ ہیں ـ صرف ایک اضافی ذمہ داری جو اس تعلق میں موجود ہوتی ہ وہ اس تعصب اور تنقید کا سامنہ کرنا ہے جو کہ نہ صرف پاکستانی معاشرے بلکہ تمام دنیا میں ہم جنس جوڑوں اور افراد کو درپیش ہےـ

 

“صرف مردانہ خواتین اور نسوانی مرد ہمجنس ہوتے ہیں ـ”

کسی بھی معاشرے میں موجود “نسوانی” اور “مردانہ” خصوصیات کا اندازہ اس کے انفرادی کلچر کی بنیاد پر کیا جاتا ہےـ مثلاً پاکستانی معاشرے میں چاہے ایک خاتون اپنے لباس و اطوار اور نشست و برخاست میں نسوانیت کی مثال ہی کیوں نہ ہو مگر اگر اس کے بال چھوٹے ہوں گے تو اس کو مردانہ خصوصیات کا حامل تصور کیا جائے گا جبکہ دوسرے معاشروں کے کلچر کے مطابق چھوٹے بال، حتیٰ کہ گنج بھی نسوانیت کی انتہا گردانی جاتی ہےـ

اگر ہم اپنی معاشرتی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے نیچے دی گئی دونوں خواتین کے جنسی میلان کے متعلق سوچیں تو یقیناً دھوکا کھا جائیں گے ـ کیونکہ بائیں جانب چھوٹے بالوں میں مشہور اداکارہ کیٹ بلینشٹ ہے جہ کہ مخالف جنس فرد ہے جبکہ دائیں جانب لمبے بالوں می مشہور اداکارہ جوڈی فاسٹر ہے جہ کہ لیزبیئن ہےـ لہذا یہ کسی طور ضروری نہیں کہ نسوانی خصوصیات کے حامل مرد اور مردانہ خصوصیات کی حامل خواتین ہی ہم جنس ہوں ـ